پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو
اندیشہ ہائے دور دراز
اُداس شام دریچوں میں مُسکراتی ہے
ہَوا بھی‘دھیمے سُروں میں،کوئی اُداس سا گیت
مرے قریب سے گُزرے ،تو گنگناتی ہے
مری طرح سے شفق بھی کسی کی سوچ میں ہے
میں اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوں
مری نگاہ دھندلکوں میں اُلجھی جاتی ہے
نہ رنگ ہے،نہ کرن ہے،نہ روشنی، نہ چراغ
نہ تیراذکر، نہ تیرا پتہ، نہ تیرا سُراغ
ہَوا سے ،خشک کتابوں کے اُڑرہے ہیں ورق
مگرمیں بُھول چُکی ہُوں تمام ان کے سبق
اُبھر رہا ہے تخیلُ میں بس ترا چہرہ
میں اپنی پلکیں جھپکتی ہوں اُس کو دیکھتی ہوں
میں اس کو دیکھتی ہوں اور ڈر کے سوچتی ہوں
کہ کل یہ چہرہ کسی اور ہاتھ میں پہنچے
تو میرے ہاتھوں کی لکھی ہُوئی کوئی تحریر
جو اِن خطوط میں روشن ہے آگ کی مانند
نہ ان ذہین نگاہوں کی زد میں آجائے!
Add Comment