پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو
نن
وہ میری ہم سبق
زمین پر جو ایک آسمانی رُوح کی طرح سفر میں ہے
سفید پیرہن،گلے میں نقرئی صلیب
ہونٹ___مستقل دُعا!
میں اُس کو ایسے دیکھتی تھی جیسے ذرہ آفتاب کی طرف نظر اُٹھائے!
پر____یہ کل کا ذکر ہے
کہ جب میں اپنے بازؤں پہ سررکھے
ترے لیے بہت اُداس تھی
تو مرے قریب آئی
اور مجھ سے کیٹسؔ کے لکھے ہُوئے کسی خیال تک رسائی چاہنے لگی
سو مَیں نے اُس کو شاعرِ جمال کی شریک خواب،فینیؔ،کا پتہ دیا
مگر وہ میری بات سُن کے سادگی سے بولی:
پیار کس کو کہتے ہیں؟
میں لمحہ بھر کو گُنگ رہ گئی!
دماغ سوچنے لگا
یہ کتنی بدنصیب ہے
جو چاہتوں کی لذتوں سے بے خبر ہے
میں نے اُس کی سمت پھر نگاہ کی
اور اُس سمے
مُجھے مری محبیتں تمام تر دُکھوں کے ساتھ یاد آگئیں
محبتوں کے دُکھ___عظیم دُکھ!
مُجھے لگا
کہ جیسے ذرہ___آفتاب کے مقابلے میں بڑھ گیا!
Add Comment