پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو
نوید
سماعتوں کو نوید ہو۔ کہ
ہوائیں خوشبو کے گیت لے کر
در بچہ گل سے آ رہی ہیں !
کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتاہے
میں اس کی دسترس میں ہوں، مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل
بہانے ہے مجھے بھی ٹالتاہے
سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے
Add Comment