پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو
کشف
ہونٹ بے بات ہنسے
زلف بے وجہ کھلی
خواب دکھلا کہ مجھے
نیند کس سمت چلی
خوشبو لہرائی میرے کان میں سرگوشی کی
اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سنی
اور پھر جان گئی
میری آنکھوں میں تیرے نام کا تارا چمکا!
ہونٹ بے بات ہنسے
زلف بے وجہ کھلی
خواب دکھلا کہ مجھے
نیند کس سمت چلی
خوشبو لہرائی میرے کان میں سرگوشی کی
اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سنی
اور پھر جان گئی
میری آنکھوں میں تیرے نام کا تارا چمکا!
ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!
Add Comment