بشیربدر – مجموعۂ کلام: آہٹ
تھا میر جن کو شعر کا آزار مر گئے
غالب تمہارے سارے طرفدار مر گئے
جذبوں کی وہ صداقتیں مرحوم ہو گئیں
احساس کے نئے نئے اظہار مر گئے
تشبیہ و استعارہ و مز و کنایہ کیا
پیکر تراش شعر کے افکار مر گئے
ساقی تری شراب بڑا کام کر گئی
کچھ راستے میں، کچھ پسِ دیوار مر گئے
تقدیس دل کی عصیاں نگاری کہاں گئی
شاید غزل کے سارے گناہ کار مر گئے
شعروں میں اب جہاد ہے، روزہ نماز ہے
اردو غزل میں نئے تھے کفار مر گئے
اخبار ہو رہی ہے غزل کی زبان اب
اپنے شہید آٹھ، ادھر چار مر گئے
مصرعوں کو ہم نے نعرہ تکبیر کر دیا
گیتوں کے پختہ کار گلوکار مر گئے
اسلوب تحت اتنا گرجدار ہو گیا
مہدی حسن کے حاشیہ بردار مر گئے
تنقیدی اصطلاحوں کے مشاق شہ سوار
گھوڑوں پہ دوڑے آئے سردار مر گئے
ناز و ادا سے مچھلیاں اب ہیں غزل سرا
تہمد پکڑ کے صاحبِ دستار مر گئے
یا رب طلسمِ ہوش رہا ہے مشاعرہ
جن کو نہیں بلایا، وہ غم خوار مر گئے
Add Comment