دیرینہ خواہشوں سے سجایا گیا مجھے
مقتل میں کس فریب سے لایا گیا مجھے
بارثمر سے شاخِ شجر جھک گئی تو کیا
میں بے ثمر تھا پھر بھی جھکایا گیا مجھے
[/box]
جانے والے ہماری محفل سے
چاند تاروں کو ساتھ لیتا جا
ہم خزاں سے نبھا کر لیں گے
تو بہاروں کو ساتھ لیتا جا
[/box]
ہر شخص اسیرِ غم و افکار لگے ہے
اس دور میں جینا بڑا دشوار لگے ہے
پھیلی ہے فضاؤں میں یہ کس زہر کی خوشبو
جس پھول کو چھوتا ہوں وہی خار لگے ہے
[/box]
تمام عمر صحیفہ سمجھ کر جس کو پڑھا
رہی سبق تو خلافِ نصاب ٹھہرا ہے
وہ درد جس کو کیا مدتوں نظر انداز
کتابِ دل کا وھی خاص باب ٹھہرا ہے
[/box]
جو ملا اس نے بڑے رنج دئیے
جو بھی بچھڑا وہ بڑا یاد آیا
ہاتھ اٹھائے تھے فقط اپنے لیے
تو ہی وقتِ دعا یاد آیا
[/box]
یہ آرزو تھی کبھی تجھ سے گفتگو کرتے
جو دل کی بات تھی خود تیرے روبرو کرتے
دعا نکلتی ہے دل سے اداس راتوں میں
گزر رہی ہے ستاروں سے گفتگو کرتے
[/box]
ایسا ہے زخمِ دل کہ دکھایا نہ جائیگا
کس نے دیا ہے یہ بھی بتایا نہ جائیگا
یہ دل نہیں ہے درد کا روشن چراغ ہے
یہ وہ چراغ ہے جو بجھایا نہ جائیگا
[/box]
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
ہم کئی روپ دھار لیتے ہیں
زندگی کے اداس لمحوں کو
مسکرا کر گزار لیتے ہیں
[/box]
لہروں میں ڈوبتے رہے دریا نہیں ملا
اس سے بچھڑ کے پھر کوئی ویسا نہیں ملا
کچھ لوگ تھوڑی دیر تو اچھے لگے مگر
ہم جسکے ہو سکیں کوئی ویسا نہیں ملا
[/box]
اے لذتِ زندگی کے منکر
اک بار کسی سے پیار کر لے
جب تک میں تیرا جمال دیکھوں
تو زخم میرے شمار کر لے
[/box]
تسلیمِ حسن ِ دوست کی معصومیاں مگر
شامل تو کوئی فتنہ شام و سحر میں ہے
یا ربٌ وفائے عذر ِ محبت کی خبر ہو
نازک سا اعتراف بھی آج اس نظر میں ہے
[/box]
بن کے آنسو میری آنکھوں سے ٹپکتے ہی رہے
راز سینے میں کچھ ایسے بھی چھپائے میں نے
ہو نہ جائے کہیں برباد وفاؤں کا صلہ
غم ملے جتنے وہ سینے سے لگائے میں نے
[/box]
گوشِ الطاف سے محروم صدائیں میری
جذبِ تاثیر سے مایوس دعائیں میری
اک نظر دیکھ، نظر پھیر کے جانے والے
اب میرے حال پہ روتی ہیں وفائیں میرے
[/box]
چھپے ہیں اس میں نئی آرزو کے تاج محل
قبائے درد کا دامن نہ تار تار کرو
کبھی تو میری طرف دیکھ لو محبت سے
کبھی تو میری وفاؤں کا اعتبار کرو
[/box]
تیری رسوائی کا ڈر ہے وگرنہ خواہش ہے
کہ تم میرے ہو سبھی جگہ یہ خبر ٹھہرے
تیرا وجود بھی کتنا عزیز ہے کہ میں
رہوں کہیں بھی نظر تیری منتظر ٹھہرے
[/box]
حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
میں تجھ سے مخاطب ہوں تیرا حال بھی پوچھوں
تو اشک بن کے میری آنکھوں سما جا
میں آئینہ دیکھوں تو تیرا عکس بھی دیکھوں
[/box]
اے جنوں دشتِ عدم کے کوچ کا ساماں کیا
جسم کے جامے کو میں نے چاک تا داماں کیا
مر گئیں تیری جدائیں میں ہزاروں حسرتیں
عشق غارت گر نے میرے دل کو گورستاں کیا
[/box]
بلبل کی زبان پر تھا ترا ذکر مسلسل
پتوں کی جبیں پر تری تاریخ رقم تھی
دیکھا جو ترا حسن تو کھولی نہیں آنکھیں
دنیا کی ہر اک شے ترے معیار سے کم تھی
[/box]
بے نور ہو چلی ہے بہت شہر کی ہوا
تاریک راستوں پہ کہیں کھو نہ جائیں ہم
اُس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
ندیمؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم
[/box]
ہر گھڑی قیامت تھی یہ نہ پوچھ کب گذری
بس یہی غنیمت ہے تیرے بعد شب گذری
بعدِ ترکِ الفت بھی یوں تو ہم جیے لیکن
وقت بے طرح بیتا عمر بے سبب گذری
[/box]
اس دل کو تیری جھیل سی آنکھوں میں ڈبو کر
کچھ سوچ رہی ہیں میری نادان وفائیں
میں اپنے تعاقب میں افق پار چلا ہوں
اب ڈھونڈنے والے نہ مرا کھوج لگائیں
[/box]
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تاسحر آساں نہیں ہوتا
کسی درد آشنا لمحے کو نقشِ پا سجا لینا
اکیلے گھر کو کہنا اپنا گھر آساں نہیں ہوتا
[/box]
بعد مرنے کے مرے تم جو کہانی لکھنا
کیسے برباد ہوئی مری جوانی لکھنا
یہ بھی لکھنا کہ مرے ہونٹ ہنسی کو ترسے
عمر بھر کیسے بہا آنکھ سے پانی لکھنا
[/box]
نہ کہیں نوحۂ جاں ہے نہ کہیں نغمۂ دل
کچھ تو بولو کہ شبِ درد گذاری کیسے؟
سر بہ زانو ہو تو کیوں چاک گریباں والوں
بازیٔ راہِ طلب جیت کے ھاری کیسے؟
[/box]
ہم نہیں ہونگے راتیں یونہی بدلتی رہیں گی
وقت کے چہرے پہ اک نوحہ لکھا رہ جائیگا
پھر کوئی شاعر کسی برگد کے بوڑھے پیڑ پر
کھود کر ایک نام اسی کو دیکھتا رہ جائیگا
[/box]
زرخیز زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں
دریا ہی بدل لیتے ہیں رستہ اسے کہنا
کچھ لوگ سفر کے لیے ہوتے نہیں موزوں
کچھ راستے کٹتے نہیں تنہا اسے کہنا
[/box]
وہ تو اس سوچ میں ساحل پہ کھڑا ڈوب گیا
کتنا گہرا تیرے دریا کا کنارہ ہو گا
وہ میرا ہو کے بھی محروم رہا ہے مجھ سے
کیا کوئی میری طرح جیت کے ہارا ہو گا
[/box]
غزل کہوں، کبھی سادہ سے خط لکھوں اسکو
اداس دل کے لیے مشغلے تلاش کروں
میں چپ رہوں کبھی بے وجہ ہنس پڑوں محسنؔ
اسے گنوا کے عجب حوصلے تلاش کروں
[/box]
پوچھ اس قطرے سے یہ لذت طوفان کیا ہے
لاکھ طوفانوں سے گزرا جو گہر ہونے تک
ہم نے مانا قبول دعائیں ہونگی لیکن
ہم کہاں ہونگے دعاؤں میں اثر ہونے تک
[/box]
بیوقت تو آنکھوں سے نکل پڑتے ہیں آنسو
ہو رونے کا ہنگامہ تو اکثر نہیں روتے
کہساروں کے دل پگھلے تو دریا ہوئے جاری
اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ پتھر نہیں روتے
[/box]
سجی ہے بزم ستاروں سے چاند سے لیکن
وہ آدھی رات کا سورج نکلنا باقی ہے
سمجھ رہے ہو جدائی سے بات ختم ہوئی
ابھی کہاں! ابھی دل کا بہلنا باقی ہے
[/box]
Add Comment