دشت تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
نظم
دشت تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے
تیرے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں دُوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ترے پہلو کے سمن اور گلاب
اُٹھ رہی ہیں کہیں قربت سے
تری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی
مدھم مدھم ۔ دور افق پار ۔چمکتی ہوئی
قطر ہ قطرہ ۔ گر رہی ہیں تری دلدار نظر کی شبنم
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
اِس قدر پیار سے اے جانِ جہاں رکھا ہے
تیری آواز کے سائے
تیرے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں دُوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ترے پہلو کے سمن اور گلاب
اُٹھ رہی ہیں کہیں قربت سے
تری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی
مدھم مدھم ۔ دور افق پار ۔چمکتی ہوئی
قطر ہ قطرہ ۔ گر رہی ہیں تری دلدار نظر کی شبنم
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
اِس قدر پیار سے اے جانِ جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اِس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے گر چہ ہیں ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دِن آبھی گئی وصل کی رات
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہے
یوں گماں ہوتا ہے گر چہ ہیں ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دِن آبھی گئی وصل کی رات
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہے
شاعر: فیض احمد فیضؔ
Add Comment