بزمِ سخن نظم

شام سمے ایک اونچی سیڑھیوں والے گھر کے آنگن میں

girl 3138852 640

شام سمے ایک اونچی سیڑھیوں والے گھر کے آنگن میں

غزل

شام سمے ایک اُونچی سیڑھیوں والے گھر کے آنگن میں
چاند کو اُترے دیکھا ہم نے، چاند بھی کیسا؟ پورا چاند
انشأ جی اِن چاہنے والی، دیکھنے والی آنکھوں نے
ملکوں ملکوں، شہروں شہروں، کیسا کیسا دیکھا چاند
ہر ایک چاند کی اپنی دھج تھی، ہر ایک چاند کا اپنا رُوپ
لیکن ایسا روشن روشن، ہنستا باتیں کرتا چاند؟
دَرد کی ٹیس تو اُٹھتی تھی، پر اِتنی بھی بھرپور کبھی؟
آج سے پہلے کب اُترا تھا دِل میں اتنا گہرا چاند
ہم نے تو قسمت کے در سے جب پائے اندھیرے پائے
یہ بھی چاند کا سپنا ہو گا، کیسا چاند؟ کہاں کا چاند؟
انشأ جی دنیا والوں میں بے ساتھی بے دوست رہے
جیسا تاروں کے جھرمٹ میں تنہا چاند اکیلا چاند
آنکھوں میں بھی چتون میں بھی چاند ہی چاند جھلکتے ہیں
چاند ہی ٹیکا، چاند ہی جھومر، چہرہ چاند اور ماتھا چاند
انشأ جی یہ اور نگر ہے، اِس بستی کی ریت یہی ہے
سب کی اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند
دُکھ کا دریا، سُکھ کا ساگر، اِس کے دم سے دیکھ لیا
ہم کو اپنے ساتھ ہی لے کر ڈوبا اور اُبرا چاند
ہم نے تو دونو کو دیکھا ہے، دونو ہی بیدرد کھٹور
دھرتی والا، انبر والا، پہلا چاند اور دُوجا چاند
چاند کسی کا ہو نہیں سکتا، چاند کسی کا ہوتا ہے؟
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے اے مرے اچھے انشأ چاند
[spacer size=”30″]

شاعر: ابنِ انشا

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW