میرا نام طارق مقصود ہے، پیدائش کے لحاظ سے میرا تعلق پنجاب کے ایک شہر کھاریاں سے ہے ،جسکی وجہ سے میں ایک پراؤڈ پنجابی ہوں۔میں نے اپنی زندگی کے پہلے گیارہ برس اسی شہر میں گذارے۔ میرے لنگوٹیا دوستوں میں میرا تایازاد ساجد اور ہمسائیہ عاصم جسے ہم کُکّی کہتے ہیں، قابلِ ذکر ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے ہم گھر والوں سے آنکھ بچا کر کینٹ جایا کرتے تھے۔کھاریاں کینٹ پاکستان کے بڑے ترین اور اہم ترین کینٹوں میں ہوتا ہے، اس دور میں کینٹ میں پھل بہت ہوتا تھا اور خاص طور پر شہتوت، اور ہم اُس دور میں ٹھہرے شہتوت کے دیوانے، اس چسکے کو پورا کرنے کے لیے بہت سفر کیا کرتے تھے۔ اور جب گھر آتے تو بزرگوں سے خوب حجامت ہوتی تھی، مگر کینٹ کی رونق کی خاطر وہ پٹائی کچھ بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
بچپن کے کھیل بھی عجیب ہوتے ہیں، کبھی آک کو توڑ کر انکی ہاکیاں بنانا، کبھی اصل ہاکیوں سے لڑنا، کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے عزیز ترین دوستوں کو برا بھلا کہنا، اور پھر چند ہی منٹوں بعد دوبارہ وھیں کھیلنا شروع کر دینا! یوں ایک واقعہ یاد آرھا ہے کہ ایک دن ہم میدان میں کھیل رہے تھے، ایک لڑکا جو کسی دوسرے محلے کا تھا، ہمارے ساتھ کھیل میں شامل ہو گیا، کسی بات پر اس سے یارلوگوں کا اختلاف ہوا اورسات آٹھ یارلوگوں نے ملکر اس بچارے کی ایسی درگت بنائی کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔۔۔ ویری بیڈ مسعود ناؤٹی!!!
میراپیدائشی گھر گلیانہ روڈ پر واقعہ ہے،میرے خاندان کو کھاریاں میں آباد ہوئے ایک عمر ہوچلی تھی، بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب کھاریاں ابھی چھوٹا سا گاؤں تھا تب سے میرا خاندان وہی آباد ہے اور آج بھی ہے، اس دور کے کچھ بزرگ بتاتے ہیں کہ ہماری ایک وسیع جائداد تھی جس پر کسی نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا، اور اگر ہم کلیم کریں تو وہ گواہی دیں گے، مگر ہمارے بزرگوں نے ہمت ہی نہ کی اور وہ جائداد ہم سے چھن گئی۔ ہمارے گھر کے قریب ہی ایک میدان ہوتا تھا جہاں ہم کھیلا کرتے تھے۔ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سکول کھاریاں میں حاصل کی ہے۔
پاکستان میں میری تعلیم صرف تین جماعتوں تک محدود ہے یوں میں نے اُس وقت تیسری جماعت کا امتحان پاس کیا ہی تھا اور چوتھی جماعت میں ایک مہینہ ہی پڑھا تھاکہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک اچھے اور بہتر مستقبل کی تلاش میں ڈنمارک کا رخ کیا جہاں میرے والدبزرگ پہلے ہی سے آباد ہو چکے تھے۔
ہم پاکستانیوں کی یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ اتنا اچھا، قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہونے کی باوجود سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی فیملیوں کو دربدر ہونا پڑتا ہے، مجھے آج ایسا نظام، ایسی سیکیورٹی، ایسی جاب ، جو میرے پاس ڈنمارک میں ہے ، پاکستان میں ملنے کی امیدہو تو میں شام سے پہلے یورپ چھوڑدوں ۔ مگر ہزاروں خواہشیں ایسی والی بات ہے!
پاکستان میں جن اساتذہ سے میں نے علم حاصل کیا ہے مجھے وہ بہت مقدس ہیں، ان میں چند ایک کا ذکرکرنا ضروری سمجھوں گا،میراآغاز ماسٹر قمر صاحب سے ہواجومیرے والد صاحب کے جاننے والے تھے اور میرے بڑے بھائی کو بھی تعلیم دے چکے تھے، ان کے بعد مجھے جو استاد ملے وہ تھے،ماسٹر صوبیدارخان صاحب جن کے پاس میں نے دوسری جماعت پڑھی، تیسری میں ہمارے استاد ہوئے ماسٹر عظیم صاحب، بہت قابل انسان تھے۔ ماسٹر صوبیدار مجھے طارق نہیں کہتے تھے، بلکہ مقصودے کہتے تھے۔ دوسری اور تیسری میں میں کلاس کا مانیٹر بھی ہوا کرتا تھا!
میرے لیے یہ تمام استاد قابلِ احترام ہیں!
میری پاکستان میں تعلیم شروع ہوئی ہی نہیں تھی کہ ختم ہو گئی باالفاظ دیگرمیں ان دنوں تیسری جماعت کا امتحان پاس کیا تھا اور چوتھی میں ایک مہینہ ہوا تھا کہ ہمیں ڈنمارک ہجرت کرنی پڑی، یوں میری اردو کی تعلیم ختم ہو گئی۔ مگر کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ سکول جانے سے ہی علم حاصل ہو، انسان کی طلب ہو تو گوشۂِ تنہائی میں بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔بس اسی طرح میں نے بھی اردو تک رسائی حاصل کی۔ مجھے اردو سے جنون تھا، اسقدر جنون کہ میں سوچتا بھی اردو ہی میان تھا، اور پھر بعد میں جب شاعری سے دلچسپی ہوئی تو اردو سے عشق بڑھ گیا۔
ڈنمارک میں میں نے پہلے Sales and Administration کاکورس کیا، مگر طبیعت اس طرف مائل نہ تھی، میں نے اپنا ذاتی کمپیوٹر لیا جس میں وائرس ہو گیا، میں ان دنوں کمپیوٹر میں اسقدر جاھل تھا کہ ایک ریکوری سی ڈی تک استعمال کرنا نہیں آتی تھی، بہت پریشانی ہوئی کہ میرے کمپیوٹر کو کیا ہو گیاہے اب ٹھیک کیسے ہوگا؟
لیکن وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی راہیں لکھ دی ہیں کہ اسنے کس سمت جانا ہے بس اس کو اسکی تجسس کرنی ہوتی ہے۔ بس یہی تجسس مجھے میرے ایک دوست تک لے گئی ۔ ایک ڈینش دوست کی ملکیت میں ایک بہت بڑی ورکشاپ تھی، وہاں پر میں نے اپنا کام چھوڑ کر Apprenticeship اختیار کی ابھی مجھے وہاں چند ماہ ہوئے تھے آئی ٹی سیکھتے ہوئے کہ کوپن ہیگن کی Copenhagen Energy میں نیٹ ورک ایڈمینسٹریٹر کی حثیت کام ملا۔ چند سال وہاں کام کرنے کے بعد مجھے ایک خاص سسٹم کی ذمہ داری دی گئی جس نے میرا بزنس کئیریر مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا، ایسا کہ میں نے اسکے بعد دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کیا، بہت ساری جگہیں گھوما، ہزاروں مختلف طبع کے لوگوں سے بات چیت کرنے اور انکے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا پھر آخر آج کل ایک پرائیویٹ فرم میں کام کر رھا ہوں۔یہ سب اللہ کی رحمتوں کا نتیجہ ہے کہ میں ایک کامیاب زندگی گزاری اور گزار رہا ہوں، الحمداللہ۔
میرا ایمان ہے کہ یہ دنیا ایک شطرنج کی مانند ہے اور اللہ تعالٰی نے ہر انسان کو ایک مہرے کی طرح اپنے اپنے کام پر مقررفرما دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس رزاق نے ہرجاندارکو رزق مہیا کرنے کا وعدہ بھی فرما دیاتو پھرانسان حسد کیوں کرے؟ جوبھی مشکل آتی ہے اس میں کوئی نہ کوئی بہتری ہوتی ہے، مشکلات انسان کے دل کو مضبوط کرنے کے لیے آتی ہیں، مضبوط انسان ہر مشکل کو ہنس کر سہنا جانتا ہے۔