Current Affairs

جھمکے

جھمکے

جھمکے جھمکے جھمکے جھمکے جھمکے جھمکے جھمکے جھمکے جھمکے جھمکے

عمران خان کی حکومت کو ناجائز طور پر ختم کرنے کے بعد پاکستان میں ایک ایسا نظام قائم کیا گیا ہے جو انسانی کائنات کی بدترین ذہنی، علمی، حکمی، سیاسی، سماجی، معاشی اور اخلاقی دلدل کی بدترین مثال ہے!

یوں ایک کرمنل کو عدالت کے کٹہرے سے اس وقت نکالا  گیا جب اسے عدالتی طور پر کرمنل ہونے کا سرٹیفیکیٹ ملنے والا تھا اور پھر اسے بائیس کڑوڑ افراد کے خودساختہ اسلامی جمہوریہ کا وزیراعظم لگا دیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کرمنل انتخابات میں عوام کے مسترد کردہ لوگ تھے، یعنی دوسرے الفاظ میں اس وقت پاکستان پر انکی حکومت ہے جنہیں عوام مسترد کر چکی ہے: یہ ہے پاکستان میں عوام کی طاقت!

ابھی چار سال پہلے تک نون گینگ، زرداری گینگ ایک دوسرے کو کائنات کا سب سے بڑا ڈاکو، چور، لٹیرا ثابت کرنے میں مہو تھے اور جو جو انکشافات ان کر کرپشن کے سامنے آ رہے تھے اس کا کریڈیٹ لے رہے تھے۔ پھر عمران خان جیت گیا اور اس ملک کا ایک ایک ناسور ایک ایک خنزیر ایک دم ایک دوسرے کے سب سے بڑے دوست بن گئے۔ اوربنتے بھی کیوں نہ؟ ان سب ڈاکوؤں کے مفاد ایک جیسے تھے: اپنی کرپشن اور جرائم کے دفتر پر پردہ ڈالنا!
مگر عمران خان کی حکومت میں مافیاز پر ہاتھ ڈالا جا چکا تھا، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عمران خان کا سب سے بڑا دوست جہانگیرترین خان سے الگ ہو گیا اور اپنے ساتھ اپنے کتے لے گیا!

مگر خان نے ہمت نہ ہاری اور نہ ہی کسی کے سامنے جھکا: اگر اسے اپنی حکومت کی فکر ہوتی تو وہ کسی طرح جہانگیرترین کو راضی کر لیتا اور پھر کس کی جرأت تھی کہ اسکی حکومت کو گرا سکتا؟

مگر یہ غلیظ سیاسی کھیل کھیلا جا چکا تھا جس میں آرمی ملوث تھی! اور یوں عمران خان کی حکومت کو ایک ناجائز سازش کے تحت ختم کرکے حکومت انہی کو دیدی گئی جو اس دھرتی کے سب سے غلیظ ترین خنزیر سیاستدان تھے، جنہیں عوام دھتکار چکی تھی، مسترد کر چکی تھی!

آٹھ ماہ میں اس ملک میں مہنگائی نے کمرتوڑ اضافہ ہوا، ڈالر کی قیمت آسمانوں پر جا پہنچی مگر اب کسی صحافی، کسی سیاستدان، کسی خنزیر کو اس مہنگائی کی پروا نہیں تھی کیونکہ اب ان کے اپنے پیٹ حرام کے پیسے سے بھر چکے تھے۔

آج آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی چیف آف آرمی اسٹاف کی ڈیوٹی کے چھ سال مکمل ہونے کے بعد الوداعی تقریر تھی!

موصوف کی تقریر نے میری آرمی سے جو محبت تھی اس کو بہت زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔

موصوف کہتے ہیں:   “مشرقی پاکستان کا علیحدہ ہونا فوجی نہیں سیاسی ناکام تھی”


چلیں   ایک لمحے کو ہم آرمی چیف صاحب کی بات کو مان ہی لیتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کا علیحدہ ہونا فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی، مگر جنابِ اعلیٰ یہ فرمائیں گے کہ اس وقت پاکستان کی سیاست کے افق پر کون راج کررہا تھا؟ ایوب خان! وہ صاحب کون تھے؟ فوجی ڈکٹیٹر جو پچھلے تقریباً بارہ سالوں سے اقتدار پر براجمان تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے قریب قریب انہوں نے عنوانِ حکومت کس کو سونپ دیا؟ یحیٰ خان کو! وہ صاحب کون تھے؟ فوجی ڈکٹیٹر! مغربی پاکستان میں کوئی بھی ایسی سیاسی قوت نہیں تھی جو فوج کے سامنے سیاست کر سکتی ہوتی۔

جبکہ بھٹو صاحب نے یہ بھانپتے ہوئے کہ اب فوجی اقتدار کا آخری وقت قریب ہے لہٰذا انہوں نے پہلے مجیب الرحمان کی عوامی لیگ میں شمولیت کا اظہار کیا جو مجیب الرحمان نے ٹھکرا دیا۔ پھر انہوں نے پی پی پی کی بنیاد رکھی اور 1970 کے پہلے فری اینڈ فئیر الیکشن میں بری طرح شکست کھانے کے بعد اپنی شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ملک کے ٹکڑے کروا لیے: بھٹو صاحب کون تھے؟ جنرل ایوب کے چہیتے اور انکے سیاسی تخم سے پیدا ہونے والے وہ سیاستدان جنہوں نے یحییٰ خان کا بھرپورساتھ دیااور آخری دم تک عوامی لیگ کو دبانے کی کوشش کی۔ جب دیکھا کہ تمام تر حربے ناکام ہو چکے ہیں تو ڈھاکہ سے مغربی پاکستان کے مختلف صوبائی لیڈروں کو اپنے اپنے صوبے کی خودمختاری کا نعرہ بلند کرنے کا مشورہ دیا! جنابِ اعلیٰ یہ سارا کھیل عسکری قوت ہی کا تو بنایا ہوا تھا! کب تک جھوٹ، مگروفریب اور دھوکہ دہی سے اس قوم کا جاھل بناتے رہیں گے؟ کب تک سچ کو دباتے رہیں گے؟

موصوف مزید فرماتے ہیں: فوج کی سیاست میں مداخلت غیر آئینی ہے


جنرل صاحب پاکستان کا آئین 1973 کا ہے اس دوران فوج دو بار کوئی 18 سال تک حکومت کر چکی ہے۔ کیا وہ 18 سال پاکستان کے آئین پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہیں؟ کیا ان پر کوئی دفع لگنی چاہیے؟ کیا اس پر کوئی باس پرس ہونی چاہیے؟ کیا فوج کو عدالت میں جوابدہی کرنی چاہیے؟ آپ نے بالآخر اعتراف کر ہی لیا کہ فروری سے پہلے تک فوج پاکستان کی سیاست میں دخل اندازی کرتی رہی ہے۔ فوج نے پاکستان کے سیاسی نظام اسی طرح تباہ و برباد کیا ہے جیسے دو بڑی مگر کرپٹ ترین جماعتوں نون گینگ اور زرداری گینگ نے کیا ہے۔ آپ نے انہیں یہ تباہی کرنے کی اجازت دی کیوں کہ اس میں فوج کا اپنا مفاد تھا! آپ کس طرح خود کو اس نظام کی تباہی سے دور سمجھ سکتے ہیں؟ 

موصوف مزید فرماتے ہیں: “میری بیوی اور بہو کے جو آثاثے ہیں (جائداد کے) انکی جوابدہ وہ خود ہیں”


پاکستانی عوام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اصل علم سے دور رکھا گیا ہے تاکہ یہ عوام نہ ہی تو کوئی سیاسی سوچ رکھے، نہ  سوال کرنے کی پوزیشن میں ہو اور نہ ہی حقائق اس قوم کے سامنے آئیں! کرپٹ سیاستدان کہتے ہی کہ ہماری اولادوں کے پاس جائدادیں کہاں سے آئیں؟ ہم جوابدہ نہیں، ہمارے بنکوں میں کون خزانے جمع کراتا رہا ہمیں نہیں پتہ! کرپٹ ججز کہتے ہیں کہ ہماری بیویوں کے پاس جائدادیں کہاں سے آئیں ؟ ہم انکے جوابدہ نہیں۔ کرپٹ بیوکریسی بھی یہی جواب دیتی رہی اور اب اس الوداعی تقریر میں پاکستان کے سب سے مستحکم اور مضبوط ادارے کے سربراہ نے بھی وہی بیان دیا ہے کہ میں اپنے بیوی اور بہو کے اثاثوں کا جوابدہ نہٰیں ہوں۔

جنابِ اعلیٰ آپ کو ہونا بھی نہیں چاہیے۔ آپ کی بیوی اور بہو اپنے اثاثے شو کرانے کے کی خودمختار ہیں مگر جنابِ اعلیٰ کیا آپ کو حیرت نہیں کہ آپ  کے گھر پڑی خواتین جائدادیں اور اثاثے کیسے بنا لیتی ہیں؟ انکے پاس کون سا الہ دین کا چراغ ہے جس کو گھماتے ہی انکے پاس جائدادیں آ جاتی ہیں اور آپ کو عل تک نہیں ہوتا؟
چلیں یہ بھی تسلیم کر لیا کہ ان کے پاس الہ دین کا چراغ ہے تو کیا انہوں نے اپنے اثاثے ٹیکس کے گوشواروں میں جمع کرائے ہیں؟ یا آپ کی بیوی  اور بہو بچے پاکستانی ٹیکس سے بالاترہیں؟ کوئی ہے جو ان سے سوال کر سکتا ہے؟ یا ان سے سوال کرنا گناہ ہے؟

یہی بات اس صدی کی کرپٹ ترین عورت مریم صفدر کہتی رہی ہے کہ “میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں”۔۔۔

یہی بات قاضی عیسیٰ فائز کہتا چلا آیا ہے کہ “میں اپنی بیوی کے اثاثوں کا ذمہ دار نہیں”

پاکستان کا نظام سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کرپٹ کیا گیا ہے کہ نہ میں تم سے پوچھوں گا نہ تم مجھ سے پوچھنا، تم بھی جہاں تک ممکن ہو کرپشن کرنا میں بھی کرونگا، یہ وہ غلیظ نظام ہے جس  پر علاؤالدین نے کم و بیش 60 سال پہلےسوال اٹھا دیا تھا:

کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے
کس نے پہنائے ہیں یہ جھمکے
تمہارے کانوں میں کیا کہہ رہے ہیں یہ جھمکے

پاکستان کے غلیظ ترین نظام میں شرفا کی بیویوں، بیٹیوں، بہوؤں نے جو پہنے ہیں یہ وہ جھمکے ہیں جن کا کوئی حساب نہیں!


بقلم: مسعود

SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW