Current Affairs Humara Moashra

پاکستانی میڈیا

پاکستانی میڈیا
میں ایک عرصۂ دراز سے پاکستانی میڈیا میں پھیلتی ہوئی عریانی، بے حیائی، بے پردگی اور فحش پن کے خلاف لکھتا رہا ہوں۔

اس ضمن میں 2006 میں اسٹلائیٹ چینل اے آر وائی کو ایک ای میل بھی لکھا جب میں ایک فورم سے وابستہ تھا اور اے آرئی وائی پر فحاشی پر مبنی اشتہارات کی بھرمارہورہی تھی اور انکے پروگرامز میں ہندوستانی ڈراموں کا سایہ بڑھتاجارہا تھا۔

ایک دورتھا جب پاکستان ٹیلیویژن کی اداکارائیں اور یہاں تک کہ اداکار بھی پاکستانی فلموں کی نسبت بیزاری کا اظہارکرتے نہیں تھکتے تھے کہ فلموں میں بیہودہ ڈانس اور رقص دکھایا جاتا ہے وہ ہم نہیں کر سکتے۔۔۔۔ آج انہی کی اکثریت مختلف چینلز پر کنجروں کی طرح ناچتے نظرآتے ہیں اور ااسکو انٹرنیٹ منٹ کہتے ہیں! ڈراموں کا معیار اس قدر غلیظ اور بداخلاق ہے کہ انہیں دیکھتے ہوئے کسی بھی دل درد رکھنے والے بندے کے ماتھے پر پسینہ آ جائے۔

پرائیویٹ چینلز کی اسقدر بھرمار ہو چکی ہے اور میڈیا کی آزادی ایک ایسے دور میں داخل ہوچکی ہے کہ مقابلہ سخت تر ہوچکا ہے۔ اپنے پروگرامز کی ریٹنگز کو بڑھانے کے لیے نئے نئے اندازاپنائے جارہے ہیں۔ ان میں ایک مورننگ شوز ہیں۔ بدقسمتی سے یہی مورننگ شوز بے حیائی کے ایک نئی لہر کو لیے ہوئے آئے ہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ ان مورننگ شوزمیں ‘واک آؤٹ’ کے انداز میں عورت کی عریانی کی ایک نئی لہر چل پڑی ہے۔۔۔ عورت کے ہپس کیسے ٹائیٹ کیے جاسکتے ہیں، عورت کی چھاتی کیسے سیٹ کی جاسکی ہے، عورت کے جسم کے مدوجزر کیسے فارم میں لائے جاسکتے ہیں وغیرہ!

اس پر غیرعورتوں کا غیرمردوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر جسموں کے مدوجزکومیوزک کی لے پر لہرانا جسے یہ ڈانس کہتے ہیں انتہائی غیراخلاقی اور مجروح کن حرکت ہے۔ مگر بدقسمتی سے چینلز اب اسے معیوب نہیں سمجھتے اور دھڑادھڑ ایسی بیہودگیاں پروان چڑھ رہی ہیں۔ ذرا کبھی ایوارڈز شوز دیکھ لیجیے!

اسی قسم کا ایک مارننگ شو نیونیوز پرہوا۔ پروگرام کی ہوسٹ جو ایک عورت ہی تھی، کے ساتھ دوسرے مہمانوں نے ایسا ہی ایک بیہودہ رقص کیا ، جس کے بعد ہوسٹ نے پروگرام میں شامل ایک کامیڈین باسط خان کو جو اس ڈانس میں شریک نہ ہوا، اس سے گلہ کیا کہ تم ڈانس میں کیوں شامل نہیں ہوئے؟ باقی کی بات اس ویڈیو میں دیکھیں:

بیشک اس میں باسط علی کا اندازِ گفتگو بھی درست نہیں! مگر اس کی بات پر جو ری ایکشن ہوا وہ انتہائی تشویش ناک ہے! یوں لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب بے حیائی اور بیہودگی کو جسٹی فائی کیا جانے لگا ہے کہ یہ درست ہے! 

درحقیقت ہمارے معاشرے کی اساس ایک مدت سے کھوکھلی اور بیجان ہوتی جارہی تھی۔ لہٰذا اب اسکی گرتی ہوئی ساکھ بھی معیوب محسوس نہیں ہوتی۔ اس میں ایک بہت بڑا ہاتھ سوشل میڈیا کا ہے۔ ایک وقت تھا جب عورت اپنا نام تک بتانے سے گریز کرتی تھی، آج کی عورت اپنی رنگ برنگی تصایر دکھا کر اپنے فالوورز سے لائیکس اور کامنٹ لیتے ہوئے فخر محسوس کرنے لگی ہے!اپنے جسموں کے مدوجزر کو دکھانا آج کے مردوزن کیلیے وقت کی پکار ہے اور اس میں دورِ حاضر کے ساتھ چلنے میں ایسا کرنے کو وہ کوئی معیوب نہیں سمجھتے!

میں نے ہیرامنڈی جاکر طوائفوں کا ناچ گانا سننا اورانکےجسموں کے مدوجزر کو میوزک کی لے پر ہلتا ہوا دیکھنا چھوڑددیا ہے کیونکہ آج کل سوشل میڈیا ، ٹک ٹاک ، انسٹاگرام اور ٹی وی چینلز پر بظاہر شریف زادیوں کا مجرا زیادہ پرکشش محسوس ہونے لگا ہے۔ رنگ برنگی دوشیزائیں جب اپنی چھاتیوں اور ہپس کو ٹائٹ کپڑوں میں دکھا کر انہیں چھلکاتی ہیں تو طوائفوں کے جسم برے معلوم ہونے لگتے ہیں – اور اوپر سے سب کچھ مفت!

پردرد بات یہ ہے کہ اکثر والدین کو علم بھی نہیں کہ انکی خاص کر بیٹیاں موبائلز پر کیا کیا گل کھلا رہی ہیں۔ موبائلزنے اب شیطانیت کو اسقدر آسان کر دیا ہے کہ لوگ خاموشی سے راہ چلتے مسافروں کی فلمیں بنا کر انہیں ایڈیٹ کر کے مس یوز کررہے ہیں۔موبائل پر لڑکیوں کو محبت کے جھوٹے خواب دکھا کر لڑکیوں  کو جسم کے مختلف اعضا دکھانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر ان کے ننگے جسموں کی فلمیں بنا کر انہیں پھر مزید زنا کے لیے بلیک میل کیا جا رہا ہے اور لڑکیاں بدقستمی سے ایسی باتوں کے چکر میں پھنستی چلی جارہی ہیں۔ 

ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک مشہورومعروف نام وقارذکا کی ایک ویڈیو لیک ہوئی جس میں وہ ایک کم سن لڑکی کے غیراخلاقی باتیں کررھا تھا۔  ا سکے علاوہ ایک دوسرے کیس نے بہت شہرت پائی جس میں میشاشفیع نے علی ظفر پر غیراخلاقی حرکات کرنے کا مقدمہ کیا ہوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس معاشرے میں گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔

ہمارامعاشرہ ایک ایسی تباھی کے دھانے پر کھڑا ہے کہ ہمیں “برائی” اب برائی لگتی ہی نہیں۔ بلکہ ہمارا ضمیر اسقدر ہیچ ہوچکا ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ‘سب کررہے ہیں ہم نے کر لیا تو کیا ہوا’  –  یہ بھول جاتے ہیں کہ سب ہماری قبر میں نہیں جائیں گے!اس میں میڈیا کا سب سے اہم کردار ہے جہاں اب اگر کوئی ایسی باتوں میں حصہ نہ لے اسے اگلے پروگرام میں لیا ہی نہیں جاتا۔ ایک نئی لہر اٹھی ہے وہ پرائیویٹ یوٹیوب چینلز ہیں! اپنے موبائلز سے طرح طرح کی فلمیں بناکر یوٹیوب پر ڈالی جارہی ہیں اور تماش بین طلب رکھنے والے دیکھنے کو تیار ہیں۔ یہی حال ہماری صحافت کا ہے کہ ہر دوسراتیسرا بندہ یوٹیوب پر صحافی بنا بیٹھا ہے! جھوٹ اور من گھڑت باتیں عروج پر ہیں اوراخلاقیات کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں مگر لوگ اس رنگ میں رنگے چلے جارہے ہیں۔  فیس بک پر اپنے اپنے پیج بنا کر غیراخلاقی اور علم سے دو باتیں پھیلائی جارہی ہیں جن پر کسی قسم کا کوئی بھی چیک نہیں کہ اس میں حقیقت کتنی ہے۔ اقبال کے نام پر بیہودہ اشعار پوسٹ کر کے اپنے مفاد حاصل کیے جارہے ہیں۔

جب کسی معاشرے میں بے حیائی، بیہودگی، عریانی اور فحاشی کو جسٹی فائی کیا جانے لگے تو اس معاشرے کی تباہی کا انتظار کیجیے۔    بے حیائی اور عریانی کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ وقت بتائے گا!

پاکستانی میڈیا پاکستانی میڈیا پاکستانی میڈیا پاکستانی میڈیا پاکستانی میڈیا پاکستانی میڈیا پاکستانی میڈیا پاکستانی میڈیا پاکستانی میڈیا 


بقلم: مسعود

SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW