میرے دل سے تیرے دل تک
پھیل گیا جب آس کا گلشن، میرے دل سے تیرے دل تک
پھول کھلانے آئی دھڑکن، میرے دل سے تیرے دل تک
چھائی ہوئی تھی گھور اداسی، تیری میری روح تھی پیاسی
پیار پون تب سنکی سن سن، میرے دل سے تیرے دل تک
کپڑوں میں تھا جسم برھنہ، مشکل تھا جب شہر میں رہنا
جنگل کا تب پھیلا دامن، میرے دل سے تیرے دل تک
بھیڑ تو ہے رشتوں ناطوں کی، چھیڑ نہ بات ملاقاتوں کی
آج بھی ہے ایک بیگانہ پن، میرے دل سے تیرے دل تک
جہاں رہے نت پیار کی جھلمل، دور نہیں ہے اب وہ منزل
قدم قدم لیکن سو رہزن، میرے دل سے تیرے دل تک
کرے گا کیا لفظوں کا تیشہ، لڑتے ملیں قتیلؔ ہمیشہ
اک مُلا اور ایک برھمن، میرے دل سے تیرے دل تک
دیں ہم لاکھ قتیلؔ دلاسے، بن پانی کیا بہلیں پیاسے
برسے کاش کبھی کوئی ساون، میرے دل سے تیرے دل تک
شاعر: قتیل شفائی
Add Comment