Meri Shairi Shab-o-Roz

Meri Shaairi: Meri Khushi Per Gham Key Baadal

Meri Shaairi: Meri Khushi Per Gham Key Baadal

Meri Shaairi: Meri Khushi Per Gham Key Baadal

میری خوشی پر

میری خوشی پر غم کے بادل چھائے ہیں‘ برسے ہیں
سکون کے اک پل کے لیے یہ نین نگوڑے تڑپے ہیں‘ ترسے ہیں

اے کاتبِ تقدیر تو ہی بتا دے کب تک ہو گی ستم ظریفی
میں بھی آخر بندہ ہوں تیرا‘ میرے لیے کیوں بدنصیبی
تیرے اس منطق کو میں مذاق کہوں یا دردمندی
یا تو ہلاھل مجھ کو پلا دے یا پھر کر دے آنسوبندی
نام پہ تیرے آس لگائے بیتے لاکھوں عرصے ہیں

یہ بات واضح ہے اے دل تیرا یہاں کوئی سہارا نہیں
بیچ بھنور وہ ناؤ ہے تو جس کا کوئی کنارا نہیں
ڈبو دے اب یہ کشتی دوراں اس کے سوا کوئی چارا نہیں
ہمیں کوئی چاہے گا کیونکر؟ اس چمن میں کوئی ہمارا نہیں
کس کا ہے انتظار ہمیں ہم کس کے منتظر سے ہیں

چھوڑ اب یہ وصل کی باتیں‘ وصل تجھے نایاب ہے
تو اک ایسا دریا ہے کہ‘ ساحل جس کا کمیاب ہے
تجھ کو جینا ہے آسوں میں‘ آسیں ڈھلی نراسوں میں
تیرا دل ہے شمع جیسے‘ جلتی ہے جو دلاسوں میں
امید پر ہی تو جیے جا‘ دن خوشیوں کے دور تر سے ہیں

سکون کے اک پل کے لیے یہ نین نگوڑے تڑپے ہیں‘ ترسے ہیں
میری خوشی پر غم کے بادل چھائے ہیں‘ برسے ہیں

مسعودؔ

Meri Shaairi: Meri Khushi Per Gham Key Baadal

Shab-o-roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW