Columns Meri Tehreerein

Kaash Main Aik Dictator Hota!

Meri Tehreer: Kaash Main Aik Dictator Hota!
Kaash Main Aik Dictator Hota
مغربی میڈیا نے ہٹلر کو عبرت کی بدتر مثال بنا کر پیش کیا ہے۔ اُسے ایک ایسے ڈکٹیٹر کے روپ میں پیش کیا ہے کہ اسکا نام تک لینا گناہ سمجھا جانے لگا ہے۔ اور اسے دنیا بھر کے لیے سب سے بدترین ولین بنا دیا ہے۔

مگر آج کل کے تاریخدانوں سے سوال ہے کہ کیا! ہٹلر اتنا ہی بُرا تھاکہ جرمنی کی ایک قوم اسکے نام پر جان دینے کو تیا ر تھی؟ آج  جو ہٹلر کا نام  ہونا ہی شرمناک بات سمجھی جاتی ؟تاریخ ہمیشہ فاتح لکھتا ہے اور جو تاریخ فاتح نے رقم کی  وہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ کیونکہ نہ ہی تو  ہٹلر اتنا بُرا تھا کہ وہ نشانِ عبرت بنایا جائے اور نہ ہی  صدام برا تھا کہ اس کی وجہ سے ایک نہتی اور بے گناہ قوم کو قتل و غارت کا نشان بنایا گیا ہے، جسکی معذرت آج خود یورپ کرتا پھرتا ہے! جبکہ تاریخ میں صدام کو ہٹلر کے مقابل کھڑا کیا جائے گا۔

 ہٹلر نے جب جرمن قوم کا جائزہ لیا تو اُسے یہ محسوس ہوا کہ جرمن قوم کو امیر طبقے نے پسماندگی کا شکار کیا ہوا ہے، ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی، ٹیکسز کی بھرمار تھی مگر عوام غربت کی زندگی گزار رہے تھے جبکہ امیرطبقہ امارت و فراوانی دولت میں جھوم رہے تھے، اور ایسے  طبقے میں اکثریت اُن یہودیوں کی تھی جو زبردستی یہودی بنے تھے۔ یہودی دولت پر برجمان تھے!

ہٹلر نے برسرِ اقتدار آ کر یہودیت کے اثر کو ختم کرنے کے لیے اِن کا قتل شروع کیا۔تاریخ لکھتی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ اُس وقت دوسری جنگِ عظیم میں آئے جب ہٹلر نے صلح کی ہر پیش کش مسترد کردی! اور ایک غاصب بن کر چھانے لگا۔

حالانکہ حقیقت یہ کہ امریکہ اور برطانیہ اُس وقت دوسری جنگِ عظیم میں داخل ہوئے! جب یہودیوں نے انہیں مال و دولت کا ایک ذخیرہ دیا اُن کے دفاع کے لیے۔ریکارڈ پر موجود ہے کہ  امریکی صدر روزویلٹ نے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا! کہ اسکے عوض ہم تمہیں ایک ملک دیں گے اور وہ ملک فلسطین کی رگیں کاٹ کر بنایا گیا،جسے بقولِ عام امریکہ اور برطانیہ کا ناجائز بچہ بھی کہا جاتا!

ہٹلر نے ایسا کوئی کا م نہیں کیا جسے دنیا کی تاریخ کی دوسری بڑی طاقتوں نے اپنے عروج پر نہ کیا ہو!

اسکندرِ اعظم نے بھی اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے انسانیت کا خون بہایا،! کیا وہ ڈکٹیٹر نہیں کہلا سکتا؟ رومیوں نے کیا نہیں کیا؟ تاتاریوں نے کیا نہیں کیا؟! یوں تو ہم چنگیز خان کو بھی ڈکٹیٹر کہہ سکتے ہیں! اور اُسی قطار میں کھڑا کر سکتے ہیں جس میں ہٹلر ہے، کیونکہ چنگیز خان نے بغداد جو اُس وقت دنیا میں علم اور ہنر کا مرکز تھا، اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی! ہمارے مسلمان سلاطین نے سلطنتوں کی خاطر کیا نہیں کیا؟

اگر ماضی کو چھوڑیں حال کی بات کریں تو کیا جارج ڈبلیوبش کسی ہٹلر سے کم ہے؟ جس نے اقوامِ متحدہ کے ہر اصول کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے امریکی اور یہودی مفاد کی پرستی کی، کیا یہ کسی ہٹلر سے کم ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ ہٹلر سے دوہاتھ آگے ہے، مگر جو تاریخ رقم کی جائے گی اُس میں بش کو ہیرو اور صدام کو ولین لکھا جائیگا۔ تاریخ وہ لکھتا ہے جو فاتح ہو، اور فاتح وہی تاریخ رقم کرتا ہے جو اسکے مفاد میں ہو!

پاکستانی عوام بھی پسماندگی کا شکار ہے۔! پاکستان میں بھی یہودیت نے اپنا اثر چھوڑ رکھا ہے۔اور چار ہزار امیر ترین خاندانوں کی صورت میں ایک زہریلے ناگ کی طرح ملک کے اثاثوں پر پچھلے ساٹھ سالوں سے برجمان ہے۔

مسلمانوں کے روپ میں یہودیت کا یہ وہ بھیانک روپ ہے جس نے کبھی روٹی ، کپڑا اور مکان کی صورت میں عوام کے جذبات سے کھیلا ہے اور کبھی رائے وِنڈ کے کسی عیاش شریف خاندان کی صورت میں ملک کی رگوں میں اندھیرے گھولے ہیں تو کبھی ایک فوجی جرنیل کی صورت میں امریکی پالتو بن کر بھونکنا شروع کردیا!

کبھی عدالتی نظام کی آزادی کا نعرہ لگا کر اپنی راہیں ہموار کروائیں تو کبھی آٹے کا، چینی کا، آلو کا بحران پیدا کر کے ملک میں انتشار پیدا کیا، کہیں جہاد کے نام پر نوجوان مسلمانوں کا برین واش کیا اور کبھی اسلام کے نام پر دین اور دنیا کی تباہی کا بندوبست کیا ہے۔

کاش میں پاکستان کا ایک محبِ وطن غیرتمند ڈکٹیٹر ہوتا اور سب سے پہلے اِن چارہزار خاندانوں کی شہ رگیں کٹواتا اور اپنے ملک کو یہودیت کی سوچ سے پاک کرواتا۔

میں اپنے ملک کے بچہ بچہ کو سکول ڈلواتا، اگر کوئی بچہ سکول نہ جاتا تو والدین کو کڑی سے کڑی سزا دلواتا، میں اُن چار ہزار خاندانوں کی دولت جو پاکستان کا اصل حق ہے اُس سے اپنے ملک کا ڈھانچہ بدلتا، آب و ہوا کی صفائی کرواتا، پینے کو صاف پانی مہیا کرواتا،غیر آباد علاقوں کو آباد کرواتا،جہاں جہاں ڈیموں کی ضرورت ہوتی وہاں وہاں ڈیم بنواتا، نہریں کھدواتا۔ اور اگر کوئی کسی تعمیری کام کے راستے میں حائل ہونے کی کوشش کرتا، اُسے قتل کروادیتا! کاش میں ایک غیرتمند محبِ وطن ڈکٹیٹرہوتا!

کاش میں ایک غیرتمند محبِ وطن ڈکٹیٹرہوتا اور تعلیمی نظام کی از سرِ نو درجہ بندی کرواتا، مدرسوں کی حالت بدل دیتااِس طرح کہ مدرسوں میں عربی زبان پڑھائی جاتی! اور قرآن سنت اور حدیث کی تعلیم لازمی قرار دے دی جاتی،! سکول اور مدرسہ میں انٹرلنک ہوتا کہ طالبعلموں پر دنیاوی تعلیم سکولوں میں ہوتی اور مذہبی مدرسہ میں جبکہ دونوں ایکدوسرے سے منسلک ہوتے اور نصاب کا تعین سرکاری سطح پر ہوتا۔  دونوں علم حاصل کرنا ہر طالبعلم پر فرض ہوتا!

میں نام نہاد جمہوریت کا نعرہ نہ لگاتا کیونکہ میرے ملک میں کسی کو آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ جمہوریت ہوتی کیا ہے؟ جب ہم لوگ دولت سے خریدے ہوئے ووٹوں کو جمہوریت سمجھ بیٹھتے ہیں تو ہمارے اندر جمہورت کو سمجھنے کا مادہ ضائع ہو جاتا ہے۔ ہمیں جمہوریت کی روح ہی کا علم نہیں رہتا اور ہم حرامکاری کے ووٹوں کو جمہوریت سمجھتے ہیں! جمہوریت بذاتِ خود ایک استبدادی شے ہے جیسےمغربی جمہوریت مہذب انداز میں استبداد کی ایک ایسی مثال ہے جس میں سروں کی گنتی ہوتی ہے۔اُن سروں کے اندر کھوپڑی میں کیا بھرا ہے،! اُس سے بحث نہیں! یوں اگر ایک قصبے میں ۵۱ عیاش ایک طرف ہوجائے تو ۴۹ زاہدوں پر حکومت کریں گے، یہ مغربی جمہوریت ہے!

جس ملک میں ووٹ پیسے کے بل بوتے پر دئیے جائیں،! وہاں کسی بھی سیاسی نظام کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں۔ جہاں ممبر آف پارلیمان کسی بھی وقت چند حرامکاری کے پیسوں کے آگے اپنا ضمیر بیچ دیں اس میں جمہوریت ناکام رہتی ہے۔

ہماری قوم ڈنڈے کی زبان سمجھنے والی قوم ہے! انہیں جمہوریت کا شعور ہی نہیں ۔ انہیں جمہوریت شعور دینے کے لیے خونی قربانی کی ضرورت ہے۔وہ خونی قربانی کسی کرپٹ سیاسی لیڈر کی اپنے اُتنے ہی کرپٹ سرمایہ دار شوہر کے ہاتھوں موت کی نہیں،  بلکہ اُن چارہزار یہودی سوچ پر پلنے والے امیروں کی ہے جنہوں نے ملک کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ رکھاہے۔ اس ملک کو ایک خونی انقلاب کی ضرورت ہے یا ایک ایسے دکٹیٹر کی جو غیرتمند محبِ وطن ہو اور جو اپنے ملک کی عوام کے لیے اپنا خون پسینہ بہائے، اپنے آپ کی قربانی دے اور اپنی قوم کے لیے ہر اس ملک سے لڑ جاتا جو اس دنیا میں بدمعاش بنا ہوا ہے۔

کاش میں ایک محبِ وطن غیرت مند ڈکٹیٹر ہوتا اور اپنے دامن پر اِن چار ہزار خاندانوں کا خون لکھواتا!تاکہ میرے ملک میں اصل جمہوریت کی بنیاد پڑے۔میری عوام ان خنزیروں سے آزاد ہوجنہوں نے اس ملک کی رگوں کو اپنے مفادات کے لیے  حرامکاری کی مشق گاہ بنا رکھا ہے۔ میں ڈکٹیٹر ہوتا مگر ایسی جمہوریت کی بنیاد رکھ جاتا کہ میرے بعد میرے وطن کو زوال نہ ہوتا!

ایک ایسی جمہوریت جس میں خلافت کو از سرِ نو جلا بخشی جائے،جس میں ایک دینی اور دنیاوی شوریٰ قائم ہو جس میں ملک کے اعلیٰ ترین عالم اور فاضل شامل ہوں! جنکا چناؤ مفادپرستیوں پر نہ ہو بلکہ اُن کی علم اور ہنر کی قدروں پر ہواور جنہوں نے اپنی زندگی علم و ہنر کے لیے وقف کردی ہوں! جہاں انصاف کا نام لیتے ہوئے عوام سکون محسوس کرے۔ جہاں عدالت کا نام سن کر لوگ پناہ محسوس کریں!

یہی وہ شوریٰ ہو جو اپنے لیے ملک کا سربراہ چنے! اِس شوریٰ تک پہنچنے والے خریدی ہوئی ڈگریوں پر نہ ہوں بلکہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے اُن کی عمروں کے حصےعلم ، ادب، ہنر اور عظمت کی قدروں سے گزر چکے ہوں۔یہ عہدے حاصل کرنے کے خوہش مند نہ ہوں بلکہ اِن عہدوں کو اپنے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا امتحان سمجھ کر کانپنے والے ہوں اور اس سے انصاف کرنے والے ہوں۔

کاش میں ایک غیرتمند محبِ وطن ڈکٹیٹرہوتا! اور اپنے ملک کو اِس مقام تک لے جانے لیے ہر اِس تکلیف سے گزرتا ……….

……… اور میری موت کے بعد لوگ مجھے ایک ڈکٹیٹر کہہ کر میری قبر کا نام و نشان بھی مٹادیتے پرمیرا ملک وہ ملک بن جاتا جسکا ہم نے خواب دیکھا تھا!

کاش میں ایک غیرتمند محبِ وطن ڈکٹیٹر ہوتا!

بقلم:  مسعودؔ
SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW