Humara Moashra Meri Tehreerein

نیٹ بیتیاں

نیٹ بیتیاں
نیٹ بیتیاں

پیش لفظ:

انگلستان میں رونما ہونے والی ایک سچی داستان ،جسے میں نے مختلف انگلش نیوزپیپرز میں پڑھا اور اب اپنے الفاظ میں لکھ رہا ہوں!اسی طرح کی اور بے شمارکہانیاں جنم لے چکی ہیں، ہمارے کراچی میں چند ایک ایسی کہانی بھی پڑھنے میں آئی… گوکہ یہ انگلستان کا واقعہ ہے مگر ہمارے ہاں بھی ایسے واقعات جنم لے رہے ہیں۔۔۔

کمپیوٹر

ہرسال کی طرح اس سال بھی لندن کے ایک چھوٹے سے گھر میں کرسمس کی تیاریاں زور پر تھیں۔ مگر پچھلے سالوں کی نسبت امسال دس سالہ کرسٹوفر کچھ زیادہ ہی خوش و خرم دکھائی دے رہا تھا! اور بہت بے چینی سے کرسمس ایو کا انتظارکررہا تھا۔

کرسٹوفر کی خوشی کی یہ وجہ تھی کہ امسال اُس نے کرسمس گفٹ میں فادرکرسمس سے ایک برانڈنیو کمپیوٹر مانگا تھا ۔

کرسٹوفر کی ماں ہیلن جو کہ ایک مقامی سکول میں ٹیچرتھی! اور والدجیمز جو ایک الیکٹریشن تھا،! دونوں نے یقین دہانی کرائی تھی! کہ فادرکرسمس اُسکی یہ آرزو امسال ضرور پوری کرے گا اور اِس پر کرسٹوفرکویقین تھا!

ایک ایک کر کے دن گنے گئے۔! دونوں باپ بیٹے نے بڑی گرمجوشی سے کرسمس ٹری! خرید ا اُسکی سجاوٹ کی اور کرسمس ایو کا انتظار کرنے لگے۔

انتظار

انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور چوبیس دسمبر آئی۔! فیملی جیمز کے گھر خوب رونق تھی! مگر کرسٹوفر کو صرف ان تحائف میں دلچسپی تھی! جو کرسمس ٹری کے نیچے پڑے تھے۔

مگر ان میں کوئی ایسا بڑا تحفہ نظر تو نہیں آرہا تھا! جس میں کہ کمپیوٹر پیک ہوتا! کرسٹوفر کی بیقراری دیکھ کر جیمز نے اپنا روپ تبدیل کیا! اور فادرکرسمس کے کپڑے پہن کر دوسرے کمرے سے ایک بہت بڑا تھیلا اٹھا لایا! اور کرسٹوفر کو آنکھیں بند کرکے اپنی آرزو مانگنے کا کہا، کرسٹوفر نے مانگی!فوراً اس کے سامنے ایک بہت بڑا پیکٹ موجود تھا۔

کرسٹوفر نے اُسے کھولا تو خوشی سے چیخنا شروع کردیا، جدید ترین ملٹی میڈیا کمپیوٹر اس کے سامنے تھا!

کمپیوٹرتو آج کل کے دور میں ہر انسان کی ضرورت بنتاجارہا ہے۔ کہ اس سے دوردراز بیٹھے دوستوں سے آسانی سے بات چیت ہو سکتی ہے۔

اب فیملی جیمز بھی اپنے دوستوں اور احباب کی ساتھ آن لائن رہ سکتی تھی، وہ بھی انٹرنیٹ پر سرف کرسکتے تھے۔اور رنگ برنگی ویب سائٹس دیکھ سکتے تھے۔

جدید ترین خبریں، گیمز اور  دنیا کے! دور دراز لوگوں سے براہِ راست چیٹنگ کرسکتے تھے۔! کرسٹوفر دنوں میں ان تمام چیزوں کا ماہر ہو گیا۔

اب ہیلن اور جیمز کرسٹوفر کی طرف سے فکرمندرہنے لگے کہ لڑکا سکول سے آتا ہے تو کمپیوٹر میں گم ہوجاتا ہے۔ دوستوں سے کم کم ملتا ہے۔ باہر کم کم جا کر کھیلتا ہے۔ ہیلن اور جیمز اسے اکثر کہتے کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جا کر کھیلا کرے اور کمپیوٹر کے استعمال کا ایک وقت مقرر کر لے مگر کرسٹوفر کو جو مزہ کمپیوٹر میں ملنے لگا تھا وہ کہیں اور نہیں۔ کرسٹوفر اکثر اپنی ماں کو کمپیوٹر استعمال کر نے کو کہتا مگر اسکی ماں اس سے دوری کا اظہار کرتی رہی۔ جیمز کے پاس اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ وہ اس کے بارے میں سوچتا تک۔

اپ گریڈ مما

مگر کرسٹوفر نے ایک دن اپنی ماں ہیلن کو رضامند کیا کہ وہ ایک بار چیٹ کرے۔ہیلن نے نہ مانتے ہوئے بھی صرف کرسٹوفر کی خاطرکسی سے  ہلکی سی چیٹ کی، جو کہ اُسے اچھی لگی۔

اگلے دن اُس نے پہلے دن کی نسبت زیادہ وقت چیٹ پر گزارا! اور پھرآہستہ آہستہ ہیلن کو چیٹنگ کرنا اچھا لگنے لگا۔

وہ دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے اساتذہ سے مختلف امور پہ بات کرتی اور اپنے اور ان کے تجربات سے استفادہ کرتی۔

گویا اُسے کے لیے علم و ہنر کا ایک نیا باب کھل گیا!لیکن ساتھ ہی ساتھ باتیں بہت پرسنل بھی ہوجاتیں۔! ایک دن ہیلن کی بات امریکہ میں مقیم کسی بزنس مین سے ہوئی۔

دونوں کو ایک دوسرے سے رغبت پیدا ہوگئی اور اب ہرروز ان کی چیٹنگ ہوتی جو بہت زیادہ پرسنل نوعیت اختیار کرگئی۔

ہیلن کو ڈالاس میں مقیم الیکس کی کشش محسوس ہونے لگی، اسے الیکس کیساتھ چیٹ رنا اچھا لگتا اور اسکے ساتھ کئی کئی گھنٹے چیٹ کرتی۔ الیکس نے ہیلن کو دعوت دی کہ وہ امریکہ آئے جو ہیلن نے قبول کرلی!

ماں واپس آ جا

اپنی چھٹیوں میں ہیلن نے رختِ سفرباندھا اور جیمز کوبتائے بغیر ڈالاس میں الیکس کے پاس چلی گئی۔

ہیلن الیکس سے بہت متاثر ہوئی اور اُس کا رہن سہن دیکھ کر اپنے آپ سے ایک ایسا فیصلہ کیا جو کہ لندن میں ایک قیامت ثابت ہوا۔

ہیلن نے جیمز کو فون کیا کہ وہ اب واپس نہیں آئے گی! اور جیمز کے ساتھ اُسکا کوئی ناطہ باقی نہیں رہامگر ہاں وہ کرسٹوفر کودیکھنے آتی رہے گی!

جیمز نے تو یہ خبرجیسے تیسے برداشت کرلی ہو، مگر معصوم کرسٹوفرجب بھی اپنے کمپیوٹرکودیکھتا تو اُسے وہ منحوس دن یاد آتا جب اُس نے اپنی ماں کو چیٹنگ سے متعارف کروایا تھا!

….لیکن اب کرسٹوفر رو رو کر یہی کہتاہے: ماں واپس آجا، ماں واپس آجا……


تحریر: مسعود

 

Shab-o-roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW