Mazameen Meri Tehreerein

Kahan Sey Shuru Karoon?

Kahan Sey Shuru Karoon? 
Allah SWT
Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon?

کہاں سے شروع کروں؟! اللہ کے نام کے سے؟ مگر پھر سوچتا ہوں کہ اللہ تو ہرجگہ موجود نہیں پھرمیں اللہ کے نام سے کیوں شروع کروں؟! مجھے یہ درس کس نے دیا ہے کہ اللہ ہرجگہ موجود نہیں؟! کم ازکم میرے والدین نے نہیں۔! میرے استادوں نے نہیں۔ بیس پچیس سال گذر گئے ہیں یہ بات سنتے ہوئے کہ اللہ ہرجگہ موجود ہے۔!بچپن سے لیکر آج تک۔!مگر اب انٹرنیٹ کے ایک فورم کے اسلام کے سیکشن میں جائیں تو یہی درس ملتا ہے! کہ اللہ ہرجگہ موجود نہیں اور اِس بات پر دلائل دئیے جارہے ہیں۔

دوستو، اس فورم کے اسلام سیکشن میں اللہ کے ہر جگہ ہونے پر پول کیا جارہا ہے! کہ آیا اللہ ہرجگہ موجود ہے! بھی کہ نہیں۔اِس بات نے میرے اندر ایک آگ سی لگا دی ہے،! میں تڑپ اٹھا ہوں یہ حالات دیکھ کر اور مجھے اِس بات کا بہت شدت سے افسوس ہو رہا ہے !کہ ہم مسلمانوں کا ایمان کس قدر کمزور ہوچکا ہے! کہ آج ہمیں پول کروانا پڑ رہا ہے کہ اللہ ہرجگہ موجود ہے کہ نہیں۔

فرقہ بندیوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ جیسے ہی ایک عالم کی سوچ دوسرے عالم سے مختلف ہوئی ایک نئے فرقہ نے جنم لے لیا.

جھوک در جھوک اپنی اپنی تبلیغی جماعتیں لے کربیعت پہ بیعت کرانے والے بے عمل مسلمانوں کے سرو ں پر منڈھلاتے پھرتے ہیں. عوام میں بیعت کرنے کا شعور بیدار کیے بغیرکہ بیعت کس کو کہتے ہیں،  اندراج کیے جا رہے ہیں۔ مجھے بھی ایک بار حکم ہوا تھاکہ بیعت کروں۔ میں پوچھ بیٹھا کہ کس کی بیعت؟ کیسی بیعت؟ بیعت کے مفہوم تو بتادیں کہ میں کیا کرنے جارہاہوں؟ تو مجھے حکم ملا کہ سوال نہیں کرتے، جو کہا جائے کہہ دو! 

اب میں ایسی بیعت نہیں کرسکتا جسکا مجھے شعور نہیں۔! جب تک مجھے یہ نہ بتایا جائے کہ بیعت برے کاموں کو ترک کرنے! اور اچھے کاموں کے کرنے کے عہد کے ساتھ ساتھ اُس رابطہ یا نسبت کوکہتے ہیں! جو ایک روحانی قوت ہوتی ہے! اور خاموشی کے ساتھ صاحبِ نسبت سے نسبت لینے والے میں منتقل ہوجاتی ہے،! یہ وہ قوت ہوتی ہے جسے قوتِ افادہ یا افاضہ بھی کہا جاتاہے۔

یہ قوت اُس وقت تک اپنا اثر نہیں دکھا سکتی! جب تک قوتِ استفادہ (فائدہ حاصل کرنا) یا استفاضہ (فیض پانا) موجود نہ ہو۔!  اِس بات کا شعور بیدار کیے بغیر بیعت کروانے والے جانتے ہیں وہ کیا کررہے ہیں؟ ایک انجان مسلم اگر یہ فرق نہیں جانے کا! اور بیعت کربھی لے تو بعد میں اُس کے کردہ گناہوں کا ذمے دار کون ہے؟

آج کل کا انسان اپنا خدا آسمانوں اور زمینوں میں ڈھونڈرہا ہے۔کسی نے اپنے اللہ کو اپنے اندر تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔

خدا انسان کے اندر موجود ہے۔! اور ہم آسمان و زمیں پر تلاش کر رہے ہیں۔! خداکواپنے اندر تلاش کر۔ جب انسان کو خدا اپنے اندر سے مل جاتا ہے! وہ منصورحلاج بن جاتا ہے۔مگر جب ایک منصور اپنے اندراپنے خدا کو تلاش کر لیتا ہے! تو اُس پر کفر کے فتوے لگا کر اُسے سولی پر چڑھا دیاج اتا ہے،! اُس کے ہاتھ پاؤں کٹوادیتے ہیں۔اُس پر کفر کی تہمت رکھ دی جاتی ہے۔

جب اسلام کا نام لینے والوں کی یہ حالت ہے تو کفار سے کیونکر شکایت کرنی چاہیے؟

اللہ کے ہاں ہر چیز کا ایک اصول ہے۔!مگر ہم تواس قدربدتہذیب ہیں کہ اللہ سے بھی بات کرتے ہیں تو تو کہہ کر! ہم راستہ کی تلاش میں بھٹکے بھٹکے پھررہے ہیں،! ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہم نے کون سے راستے پر چلنا ہے، ایسے میں اللہ ہمیں کہاں نظرآئے؟ہ

مارے قول و فعل میں صدیوں کا تفاوت ہے،! ہمارے دلوں میں الحاد بھرا پڑا ہے،! ہاتھ بے عمل ہے اور کل پہ نظر لگائے بیٹھے ہیں۔! اے نادان! اگر آج کا کام تو نے کل پہ چھوڑدیا تو پھریہ تو سوچ کہ آج کونسا یہ کام تم نے کرلیا ہے جو کل کرے گا؟

کفار کے ہاں امن وشانتی دیکھ کرہم اللہ سے شکوہ کربیٹھتے ہیں! کہ ہم جو تیرے نام پر مرنے والے ہیں ہمیں کیا ملتا ہے! اور وہ جو تیرے نام سے بیزار ہیں انہیں سب کچھ! تو اللہ تعالیٰ جواب میں یہی کہیں گے کہ میں نے تو تمہیں وہی کچھ دیا ہے! جو تم نے مانگا۔ ورنہ اگر تمہاری نیت صاف ہوتو میں بھی یہی ہوں اور طور بھی یہی ہے! مگر اے بھٹکے ہوئے مسلمان تو موسیٰ تو بن، پھردیکھ میں کیسے تیرے سامنے آتا ہوں! 

مگر ہم تو اللہ کو آسمان و زمین میں مقید کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

ہمارا ایک اللہ ہے! نبی ہے!  قرآن ہے! اور ایک کعبہ ہے!

پھرہم  منتشر  کیوں  ہیں؟ ہماری مثال سمندروں کی اُس جھاگ کی مانند ہے جس کی اپنی کوئی اوقات نہیں! اور جو چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاس ہو جاتی ہے۔! اہل اسلام بھی تعداد میں کم نہیں، پھرکیا وجہ ہے کہ ہم رسوا ہیں؟

جواب یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے مفاد میں پھنسی ہوئی ایک منتشر قوم ہیں،ہم بے قیادت ہیں۔  بت گر ہیں بت شکن نہیں، قبروں کی تجارت کرنا،مرُدوں کا کفن بیچنا تو کوئی بڑی بات نہیں رہی، ہم تو اب اپنا ایمان تک بیچ رہے ہیں۔عرب جہاں سے اسلام کا نوربلندہواتھا، وہاں مسلمانوں کو کلاسوں میں بانٹ دیاگیا ہے، ہر مسلم معاشرے میں ایک اونچ نیچ کی طبقاتی جنگیں ہیں۔

اقبالؒ درست فرما تے ہیں:



منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندہ ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟


ہمارا علم ناقص ہے!

ہمارے علمأ میں درس دینے کا فن نہیں رہا، ہماری مساجد میں اذانیں ہیں مگر اُس میں جذبِ تاثیر نہیں، اپنے اپنے مقاصد کے لیے قرآن اور حدیث سے استفادہ کرلیا جاتا ہے، اپنی مرضی کی آیات اور حدیثیں چن لی جاتی ہے اور جو ان کے مقابل میں ہوں انہیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک حد تک تشویشناک بات ہے۔ اِس سے مجھے وہی مناظر سامنے آتے ہیں جب عیسائیت کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا گیا تھا اور بالآخر بائبل کا متن بدل دیا گیا۔ہم مسلمان بھی انہیں راہوں پر چل رہے ہیں۔ اقبالؒ فرماتے ہیں:


واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، روح ِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے


آج ہم اِس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ اللہ آسمانوں میں ہے یا زمینوں میں۔

ہماری فکرہربند سے آزاد ہے۔ہمیں اپنی اصل منزل کا نہیں پتہ۔ہم ایک بکھری ہوئی قوم ہیں جو ایک ایسے راستے پر پہنچ چکی ہے جہاں سے نکلنے والا ہرراستہ رسوائی ہی رسوائی کی طرف لے جاتا ہے، مگر ایک راستے کے۔اور وہ اللہ کی جستجو کا راستہ ہے۔جس نے جستجو کی اللہ نے اُسے اپنا دیدار دے دیامگراللہ کو پانے کے لیے سب سے پہلے اللہ کی محبت تو دل میں بیدارکرنی ہوگی۔ پھر نہ کسی بیعت کی ضرورت رہے گی اور نہ کسی فتوے کی۔ اللہ کی رسی کو جس نے پکڑلیا اللہ اُسکو اپنا رستہ خوددکھا ئے گا، پھر یہ بحث فضول ہے کہ اللہ کہاں ہے۔ اللہ ہرجگہ موجود ہے کہ اللہ انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے!

میں شروع بھی اللہ کے نام سے کرونگا اور ختم بھی اللہ ہی کے نام پہ کروں گا!

Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? Kahan Sey Shuru Karoon? 

مسعود   –  کوپن ہیگن   دسمبر  2004

Shab-o-roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW